کسی کی آنکھوں میں بے حد حسین منظر تھا
کسی کی آنکھوں میں بے حد حسین منظر تھا
مرا بدن تھا جزیرہ وہ اک سمندر تھا
وہ جلتے پنکھ لیے بڑھ رہا تھا میری طرف
مری رگوں میں ٹھہرتا ہوا دسمبر تھا
جو ایک جگنو سا بجھتا رہا دمکتا رہا
وہ اجنبی تو شناساؤں سے بھی بہتر تھا
برائے نام تو پانی تھا اس کے چاروں طرف
مگر جو ٹھہرا تو صحرا میں وہ شناور تھا
عجیب بات بتائی ہے جگنوؤں نے ہمیں
وہ بوڑھا سادھو نہیں خوفناک خنجر تھا
کنولؔ تھی تیز ہوائیں مرے تعاقب میں
میں اپنے وقت کا جلتا ہوا کلنڈر تھا