آسماں سے چھن گیا جب چاند تاروں کا لباس
آسماں سے چھن گیا جب چاند تاروں کا لباس
شبنمی کپڑوں میں لپٹی تھی زمیں کی نرم گھاس
توڑ کر دیوار لمحوں کی ہوا جب رو بہ رو
میں بھی افسردہ تھا اس کا دل بھی تھا بے حد اداس
موجزن امروز کا کھارا سمندر تھا بہت
تیری یادوں کے جزیرے تھے مگر کچھ آس پاس
جب بدن کلیوں کا سورج کی کرن چھونے لگی
اوس کی بوندوں نے پایا خود کو بے حد بد حواس
میرے تن میں خیمہ زن تھی اک سلگتی دوپہر
وہ بھی تھا پہنے ہوئے برفیلے موسم کا لباس
جسم کی چادر لپیٹے تھا کنولؔ وہ گل بدن
میں بھی اس سے ریزہ ریزہ ہو رہا تھا روشناس