کسی کے سامنے اظہار درد جاں نہ کروں
کسی کے سامنے اظہار درد جاں نہ کروں
ادھر ادھر کی کہوں زخم دل عیاں نہ کروں
لگا کے آگ بدن میں وہ مجھ سے چاہتا ہے
کہ سانس لوں تو فضا کو دھواں دھواں نہ کروں
میں اس کو پڑھتا ہوں انجیل آرزو کی طرح
سمجھ میں آئے تو معنی ہر اک بیاں نہ کروں
غضب ہے مجھ سے توقع زمانہ رکھتا ہے
کہ پا شکستگی میں رنج رفتگاں نہ کروں
یہ حکم مجھ کو ملا قصر خسروی سے کہ میں
فغاں سنوں مگر اندازۂ فغاں نہ کروں
مزے سے سوؤں اگر ہاتھ آئے شام فراق
میں ایک لمحہ بھی اس شب کا رائیگاں نہ کروں
اٹھا کے سر پہ پھروں بار آرزو محسنؔ
کمر کو خم میں کبھی صورت کماں نہ کروں