کسی کا خون سہی اک نکھار دے تو دیا

کسی کا خون سہی اک نکھار دے تو دیا
خزاں کو تم نے لباس بہار دے تو دیا


مرے شعور کو کلیاں اب اور کیا دیتیں
تصور لب رنگین یار دے تو دیا


اب اور خضر سے کیا چاہتی ہے پیاس مری
سراب رحمت پروردگار دے تو دیا


اگرچہ جبر ہے یہ بھی مگر غنیمت جان
کہ ایک جذبۂ بے اختیار دے تو دیا


یہ اور بات کہ دامن کو پھول دے نہ سکی
مگر بہار نے تلووں کو خار دے تو دیا


بہار آئے نہ آئے مگر لہو نے مرے
چمن کی خاک کو اک اعتبار دے تو دیا


امیدیں چھین لیں اس نے تو پھر گلہ کیا ہے
قرار مانگ رہے تھے قرار دے تو دیا


کرے خدا سے گلہ کیوں کسی کی مجبوری
کسی کے دل پہ سہی اختیار دے تو دیا


جمیلؔ اس آتش رخ کو ہوا نہ دو اتنی
اب اور چاہئے کیا اک شرار دے تو دیا