کسے ندیم کسے ہم نوا کہیں اپنا

کسے ندیم کسے ہم نوا کہیں اپنا
بٹھا کے پاس کسے مدعا کہیں اپنا


رہ حیات میں اپنے پرایوں سے ہٹ کر
کوئی ملے تو اسے ماجرا کہیں اپنا


ادائے پردہ نشینی کی شان کہتی ہے
وہ بت ہے تو بھی اسے ہم خدا کہیں اپنا


قدم قدم پہ نہ کیوں اہل کارواں بھٹکیں
وہ راہزن ہے جسے رہنما کہیں اپنا


ہمارے پاس ٹھہرتا ہے اجنبی کی طرح
روش جب اس کی ہو ایسی تو کیا کہیں اپنا


وہ رو بہ رو ہے تو ہوتی ہے خود شناسائی
جمال یار کو ہم آئینہ کہیں اپنا


ترے سلوک پر اب یہ سوال اٹھتا ہے
تجھے پرایا کہے جائیں یا کہیں اپنا


رشیؔ ہوا تو ہے اپنے بھی حال کا پرساں
وہ شخص ہم جسے درد آشنا کہیں اپنا