خوابوں کا مردہ گھر
تنہائی کو خواب کی دستک دیتے دیکھا
دیکھا اک گنبد کے نیچے
کھڑا ہوا ہوں
سنتا ہوں خود کی آوازیں
یہ آوازیں
مجھ کو واپس لے جاتی ہیں
خوابوں کے اس مردہ گھر میں
جو بالکل تاریک پڑا ہے
جس میں میرے ماضی کے کرداروں کے
کچھ کفن پڑے ہیں
ان لوگوں کے
جو زینت تھے ان خوابوں کی
لیکن ان کرداروں کی اب شکل نہیں ہے
اک تاریکی ہے بدبو ہے خاموشی ہے
مردہ گھر کے پردوں سے
میری آوازیں جھول رہی ہیں
جن سے اک چمگادڑ کا ننھا سا بچہ
کھیل رہا ہے
سڑکوں پر کہرام مچا ہے
کچھ تو ہوا ہے
لوگ مرے ہیں
لہو بہا ہے
اور یہ چمگادڑ کا بچہ
میری تنہائی کا وارث
میری آوازوں کی لرزاں انگلی تھامے
مجھ کو اس منظر کی جانب کھینچ رہا ہے
جہاں کسی ننھے بچے کی
لاش پڑی ہے
اور وہ چمگادڑ کا بچہ
میرے ذہن کی سوکھی پرتوں میں
احساس کا ریشہ ڈھونڈ رہا ہے
اور اس ٹھنڈی لاش پہ بیٹھا
سسک رہا ہے