خواب کا عکس کہاں خواب کی تعبیر میں ہے
خواب کا عکس کہاں خواب کی تعبیر میں ہے
مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے
میری روداد محبت کو نہ سننے والے
تجھ میں وہ بات کہاں جو تری تصویر میں ہے
پیکر خاک بھی ہوں باعث کونین بھی ہوں
کتنا ایجاز نمایاں مری تفسیر میں ہے
پھول بن کر بھی یہ احساس شگوفے کو نہیں
میری تخریب کا پہلو مری تعمیر میں ہے
حسن کے ساتھ تجھے حسن وفا بھی ملتا
اسی حلقے کی ضرورت تری زنجیر میں ہے
وسعت دامن رحمت کی قسم کھاتا ہوں
عذر تقصیر بھی داخل حد تقصیر میں ہے
ایک تہہ دار یہ مصرع ہے جواب خط میں
کس قدر شوخ بیانی تری تحریر میں ہے
کیا تماشا ہے یہ اے پائے جنون رسوا
کبھی زنجیر سے باہر کبھی زنجیر میں ہے
جانے کب اس پہ اجالے کو ترس آئے گا
وہ سیہ پوش فضا جو مری تقدیر میں ہے
گفتگو ہوتی ہے اکثر شب تنہائی میں
ایک خاموش تکلم تری تصویر میں ہے
میری نظروں میں یہی حسن تغزل ہے عروجؔ
شعر گوئی کا مزا پیروی میرؔ میں ہے