خواب جینے نہیں دیں گے تجھے خوابوں سے نکل

خواب جینے نہیں دیں گے تجھے خوابوں سے نکل
وقت برباد نہ کر رائیگاں سوچوں سے نکل


دشت امکان میں دریا بھی ہے بادل بھی ہیں
شرط بس اتنی ہے تو اپنے سرابوں سے نکل


ایک بے رنگ سی تصویر بنا لے خود کو
رنگ یکساں نہیں رہتے کبھی رنگوں سے نکل


ورنہ تو اپنے ہی اندر کہیں بجھ جائے گا
کھل کے اب سامنے آ اپنے اندھیروں سے نکل


شب نے سورج سے کہا یہ تو نہیں تیرا مقام
چل بلندی کی طرح لوٹ نشیبوں سے نکل


ترے ہونے کا تجھے بھی تو ہو احساس کوئی
ایک کونپل کی طرح اپنی ہی شاخوں سے نکل


اب وہ گرداب کی کشتی کی کہانی نہ سنا
تجھ کو ساحل پہ پہنچنا ہے تو موجوں سے نکل


اک نہ اک روز سمندر کا سفر کرنا ہے
اپنے احساس کے محدود جزیروں سے نکل