کھونٹیوں پر خامشی لٹکائی ہے

کھونٹیوں پر خامشی لٹکائی ہے
الگنی پر سوکھتی تنہائی ہے


چاند کی اجلی ڈلی برگد تلے
ہجر کی ست آسماں لے آئی ہے


درد کی اک چپچپاتی گوند میں
ڈیوڑھیوں تک چپ کی چھٹی آئی ہے


اونچے لمبے ان ستونوں کے تلے
ڈولتی ٹھنڈی ہوا سودائی ہے


نیند کے خوابی پپوٹوں کے تلے
پھانس سی چبھتی ہوئی پروائی ہے


بستروں کی چادریں ہیں بے شکن
ہاں سرہانے پر کھڑی زیبائی ہے