خون کا رنگ
کیوں چلی کیسے چلی الٹی زمانے کی ہوا کیا لہو ایک نہیں
ایک بھائی نے کسی بھائی کا گھر لوٹ لیا
قتل ممتا کو کیا نور نظر لوٹ لیا
چھین لی کانپتے ہونٹوں سے جوانی کی دعا کیا لہو ایک نہیں
آدمیت کو نمائش میں سجا رکھا ہے
دھرم کو جیسے کتابوں میں چھپا رکھا ہے
جیسے احساس محبت ہے قیامت کی بلا کیا لہو ایک نہیں
عظمت امن کا پیغام چلے تھے لے کر
بادۂ صبر کا بھی جام چلے تھے لے کر
شیشۂ ضبط تو نازک تھا مگر ٹوٹ گیا کیا لہو ایک نہیں
ساتھ دیوانے چلے ایک ہی منزل کے لیے
ایک کشتی تھی رواں ایک ہی ساحل کے لیے
مقصد زیست مگر جا کے کہیں ڈوب گیا کیا لہو ایک نہیں
اپنے ہی خون کی برکھا میں نہائے ہے سماج
کوئی پوچھے تو دہکتے ہوئے شعلوں کا مزاج
آگ یہ کس نے لگائی یہ مکاں کس کا جلا کیا لہو ایک نہیں
اپنی لغزش پہ ندامت کا سہارا دے دے
آج پھر امن و محبت کا کنارا دے دے
کیا ہوا کیسے ہوا یار مرے بھول بھی جا کیا لہو ایک نہیں