خوگر لذت ہوں میں کس شوخ کی تعزیر کا
خوگر لذت ہوں میں کس شوخ کی تعزیر کا
دل کو حسرت ہے کہ پہلو ڈھونڈئیے تقصیر کا
تھا مرا ہنگامۂ وحشت ازل سے پیشتر
عرش کی زنجیر ٹکڑا ہے مری زنجیر کا
مر گیا زنداں میں جب میں وحشیٔ آتش نفس
بجھ گیا شعلہ چراغ خانۂ زنجیر کا
سخت جانی سے دل مضطر جو تڑپا وقت قتل
بن گیا سنگ فساں قاتل تری شمشیر کا
ہو کے بسمل آرزوئے گفتگو قاتل سے ہے
ہر دہان زخم نقشہ ہے لب تقریر کا
اتنی ہے مشق تصور انتظار قتل میں
مردمک ہے آنکھ میں جوہر تری شمشیر کا
جان کر ٹھنڈی ہوا وہ چین سے سوتے تو ہیں
دم بھروں کیوں کر نہ آہ سرد بے تاثیر کا
ہوتا ہے انسان پیدا واسطے فریاد کے
یہ اشارہ ہے سریر خامۂ تحریر کا
روح آ جاتی ہے تن میں تیغ عریاں دیکھ کر
مرغ جاں بلبل ہے باغ جوہر شمشیر کا
آج تک آواز آتی ہے دہان گور سے
ہے یہ مدفن کشتۂ تیغ لب تقریر کا
اور دونا غم اٹھایا کی مٹانے کی جو فکر
داغ حسرت ہو گیا لکھا مری تقدیر کا
رفتہ رفتہ یوں گھلایا قید میں غم نے نظرؔ
طوق گردن پاؤں میں حلقہ بنا زنجیر کا