خوشی کا لمحہ ریت تھا سو ہاتھ سے نکل گیا

خوشی کا لمحہ ریت تھا سو ہاتھ سے نکل گیا
وہ چودھویں کا چاند تھا اندھیری شب میں ڈھل گیا


ہے وصف اس کے پاس یہ بدل سکے ہر ایک شے
سو مجھ کو بھی بدل دیا اور آپ بھی بدل گیا


مچل رہا تھا دل بہت سو دل کی بات مان لی
سمجھ رہا ہے نا سمجھ کی داؤ اس کا چل گیا


یہ دوڑ بھی عجیب سی ہے فیصلہ عجیب تر
کی فاتح حیات وہ جو گر کے پھر سنبھل گیا


سمجھ لیا اہم نہیں میں اس کے واسطے مگر
نظر پھر اس سے مل گئی یہ دل کی پھر بہل گیا


عجیب میرا عکس تھا اتر کے اس کی آنکھ میں
سنوارا مجھ کو اس طرح کی آئنہ ہی جل گیا