خوشبو سے تیری ہاتھ ملانے کا شوق ہے
خوشبو سے تیری ہاتھ ملانے کا شوق ہے
پھر اس کو دو جہاں سے چھپانے کا شوق ہے
آنکھیں ہوں خواب ہوں کہ شکستہ عمارتیں
ہر اک کھنڈر میں دیپ جلانے کا شوق ہے
کچھ دیر اپنے ساتھ بھی رہنے دو اب ہمیں
اس روشنی کو آئینہ خانے کا شوق ہے
اظہار آس شوق تماشا فسردگی
کیوں دل کو اتنا بار اٹھانے کا شوق ہے
ہجرت ازل سے ہے مرے اجداد کا شعار
مجھ کو بھی ایک ناؤ بنانے کا شوق ہے
کیوں ہم یہ بات بات پہ دینے لگے جواب
ان کو تو خیر بات بڑھانے کا شوق ہے
اک نور ہی تو سارے تخیل کی جان ہے
اور اس پہ ہم کو رنگ جمانے کا شوق ہے
ہر ایک کو صنم ہو خدا ہو کہ آدمی
ماتھے پہ میرے داغ لگانے کا شوق ہے
برباد ہوتے جائیں گے جتنا کرو گے تم
ہم کو تمہارا ہاتھ بنانے کا شوق ہے
نیناؔ انہی کی سمت سفر کر رہی ہوں میں
رستے میں جن کو دھوپ بچھانے کا شوق ہے