خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب

خورشید رو کی صحبت جو اب نہیں تو پھر کب
شبنم کی طرح قربت جو اب نہیں تو پھر کب


ذرے کی طرح مجھ پر اک مہر کی نظر کر
دیکھے وہ مہر طلعت جو اب نہیں تو پھر کب


جوڑا ہے زعفرانی اس گل بدن کے بر میں
خوش ہو مری طبیعت جو اب نہیں تو پھر کب


آلودہ دامنی کو دھونے کو منتظر ہوں
بارش دے ابر رحمت جو اب نہیں تو پھر کب


اس باغ میں دو روزہ ہے عشق زندگانی
گل کی طرح بشاشت جو اب نہیں تو پھر کب