خدا نصیب کرے جس کو صحبتیں میری

خدا نصیب کرے جس کو صحبتیں میری
نہ بھول پائے کبھی وہ حکایتیں میری


کہاں گئے مری مصروف ساعتوں کے رفیق
صدائیں دیتی ہیں اب ان کو فرصتیں میری


تمام شہر گریزاں ہے آج کل جیسے
کسی کے نام نہ لگ جائیں تہمتیں میری


خدا کا شکر کہ میں خود شناس ہوں ورنہ
سمجھتا کون پراسرار عادتیں میری


میں اپنی ذات کے صحرا میں کھو گیا کوثرؔ
مری نظر سے بھی اوجھل ہیں وسعتیں میری