خود سپردگی

رات بھیگے تو پرانے قصے
پئے ترتیب کوئی اور سہارا ڈھونڈیں
چاندنی نیند کا پھیلا ہوا جادو لے کر
دل کے بے خواب نگر میں اترے
اور ہوا دھوپ سے بولائی ہوئی سڑکوں پر
لوریاں گاتی نکلے
اوس ہر پھول کے دامن میں ستارے بھر دے


لیکن اس خواب خیالی کا نتیجہ کیا ہے
رات کی گود مرے درد کی منزل تو نہیں
دامن گل پہ چمکتی شبنم
لوریاں دیتی ہوئی سرد ہوا
چاندی کی نرم سنہری کرنیں
سب کے سینوں میں اتر جائیں گی
کل کے سورج کی جھلستی کرنیں
درد پھر خاک بہ سر آئے گا
خواب کی آنکھ میں سمٹا ہوا سارا کاجل
خود اسی خواب کے چہرے پہ بکھر جائے گا


دل کے قصوں کا مقدر ہے پریشاں حالی
پئے ترتیب سہاروں کا تعاقب چھوڑو
سوچ کے بخت میں اظہار کا لمحہ کب تھا
دل ناکام سرابوں کا تعاقب چھوڑو
صبح دم پھر وہی پتلی کا تماشا ہوگا
جاگتی رات کے خوابوں کا تعاقب چھوڑو