خود میں کھلتے ہوئے منظر سے نمودار ہوا
خود میں کھلتے ہوئے منظر سے نمودار ہوا
وہ جزیرہ جو سمندر سے نمودار ہوا
میری تنہائی نے پیدا کیے سائے گھر میں
کوئی دیوار کوئی در سے نمودار ہوا
چاروں اطراف مرے آئنے رکھے گئے تھے
میں ہی میں اپنے برابر سے نمودار ہوا
آج کی رات گزاری ہے دیے نے مجھ میں
آج کا دن مرے اندر سے نمودار ہوا
کیا عجب نقش ہے وہ نقش جو اس دنیا کے
کہیں اندر کہیں باہر سے نمودار ہوا
ایک شعلے کی لپک نور میں ڈھل کر آئی
ایک کردار بہتر سے نمودار ہوا
حق کی پہچان ہوئی خلق کو آزرؔ اس وقت
جب علی آپ کے بستر سے نمودار ہوا