خزاں کے گیت
اٹھاؤ ساز کہ ابر بہار باقی ہے
ابھی تو بزم میں کیف و خمار باقی ہے
ابھی ابھی تو فضا مسکرا کے جاگی ہے
ابھی تو شوق دل بادہ خوار باقی ہے
ابھی نہ جاؤ بہاریں بھی لوٹ جائیں گی
ابھی تو صحن چمن کا نکھار باقی ہے
ابھی تو انجمن مہر و ماہ بکنے دو
ابھی نقاب رخ حسن یار باقی ہے
ابھی نہ شمع بجھاؤ مرے شبستان کی
تھکی سی آس سر رہ گزار باقی ہے
ابھی تو جاگ رہی ہے نگاہ افسردہ
ابھی کسی کا اسے انتظار باقی ہے
ابھی تو دور کہیں بج رہی ہے شہنائی
کسی حسین دلہن کا سنگھار باقی ہے
ابھی تو ساز ہے سرگم ہے رات اپنی ہے
فضا حسیں ہے جہاں نغمہ بار باقی ہے
ابھی مجھے نہ کہو داستان غم اے دوست
کہ زندگی پہ ابھی اعتبار باقی ہے
کسی نے چھیڑ دئے آہ پھر خزاں کے گیت
سسک رہی ہے تمنا تڑپ اٹھا سنگیت