خرمن جاں کے لیے خود ہی شرر ہو گئے ہم
خرمن جاں کے لیے خود ہی شرر ہو گئے ہم
خاکساری جو بڑھی خاک بسر ہو گئے ہم
اپنے ہونے کا یقیں آ گیا بجھتے بجھتے
بے کراں شب میں جو امکان سحر ہو گئے ہم
نامرادی میں نشاط غم امکاں تھا عجب
ہم کبھی شاد نہ ہو پاتے مگر ہو گئے ہم
ہم نہیں کچھ بھی مگر معرکۂ عشق کی خیر
جیت مقسوم ہوئی اس کی جدھر ہو گئے ہم
جادۂ عشق ترا حق تو ادا کس سے ہوا
خیر اتنا ہے کہ آغاز سفر ہو گئے ہم
زندگی ایسے گزاری کہ سبک سر نہ ہوئے
یعنی اس دور میں جینے کا ہنر ہو گئے ہم
تیشہ بھی ہم تھے یقیں ہم تھے تو زنداں کیا چیز
یہی ہونا تھا سو دیوار میں در ہو گئے ہم
دست قدرت ہمیں کچھ اور ہے بننا سو بنا
چھوڑ یہ ذکر کہ قطرے سے گہر ہو گئے ہم