خوف زدہ لوگوں سے رسم و راہ بڑھاتے پھرتے ہیں
خوف زدہ لوگوں سے رسم و راہ بڑھاتے پھرتے ہیں
ہم بے خوابی کے موسم میں خواب دکھاتے پھرتے ہیں
بن ٹھن کر چلتے ہیں گھر سے اور اس کوچہ میں نہیں جاتے
رستہ رستہ رہ گیروں سے ہاتھ ملاتے پھرتے ہیں
ہم دیوانے ہم کو یارا کب ہے شور مچانے کا
ہم تو اپنے اندر کی آواز چھپاتے پھرتے ہیں
لوگو من کا بھید نہ کھولو لیکن کچھ منہ سے بولو
یہ سناٹے پس منظر میں شور مچاتے پھرتے ہیں
ہم نے تیرے ہجر کو آخر کار جہاں تسلیم کیا
دنیا داری کرتے ہیں اور دھیان بٹاتے پھرتے ہیں
بستی میں کیا چیز نہیں جو ویرانے میں ہوتی ہے
لوگ پرانے غاروں میں کیوں دیپ جلاتے پھرتے ہیں
جب بھی تیری یاد آتی ہے دل بہلانا پڑتا ہے
پہروں تنہا سڑکوں پر ہم گانے گاتے پھرتے ہیں
یہ آوارہ لوگ نہیں ہیں ڈھونڈ رہے ہیں بستی کو
ہم بھی تیرے شہر کی گلیوں میں چکراتے پھرتے ہیں
بن برتی ہر چیز میں محسنؔ اک دن گھن لگ جاتا ہے
اس ڈر سے ہم اپنے بدن کو دھوپ لگاتے پھرتے ہیں