سر اٹھایا عشق نے تو چوٹ اک بھاری پڑی

سر اٹھایا عشق نے تو چوٹ اک بھاری پڑی
جا کے اس کے پاؤں محسنؔ اپنی خودداری پڑی


اب جو دیکھا دونوں ہی نا قابل تفسیر تھے
رات کے جاگے ہوؤں پر روشنی بھاری پڑی


چاہنے والوں کو ہی ہونا پڑا ہے سنگسار
زندہ رہنے والوں پر ہی زندگی بھاری پڑی


میرے دکھ کو ایک ہی پہلو کی لذت تھی عزیز
اب جو کروٹ لی تو مجھ پہ آ کے بے داری پڑی


وہ سمندر وہ ہوائیں وہ تذبذب اور وہ آنکھ
جان سے جانے گئے تھے اور گلے یاری پڑی


آشنا ہونے سے پہلے اجنبی پن کھا گیا
گھر سے پہلے راستے میں گھر کی رہداری پڑی


ان دنوں شاید میں اپنی دسترس سے دور ہوں
آج تو اس کی نظر دل پر مرے کاری پڑی