خاطر حال مدارت نہیں کی جائے گی

خاطر حال مدارت نہیں کی جائے گی
ہم سے اس طور محبت نہیں کی جائے گی


روئیں گے سینۂ افلاک کے چاک ہونے تک
اس قدر ہم سے مروت نہیں کی جائے گی


کس طرح خواب کا امکان زیاں کم ہوگا
آپ سے کشف و کرامت نہیں کی جائے گی


سانحے خاک نے پھر باندھے مرے دامن سے
دل سے اس درجہ صعوبت نہیں کی جائے گی


ہم ریاکار زمانہ ہیں مگر زندہ ہیں
روشنی تیری ہزیمت نہیں کی جائے گی


تیری رخصت کے سمے ہم یہ کھڑے سوچتے ہیں
حالت ہجر تو رخصت نہیں کی جائے گی


اس ملاقات پہ اک فیصلہ ہو جانے دو
بات با طرز روایت نہیں کی جائے گی