خانۂ دل میں داغ جل نہ سکا
خانۂ دل میں داغ جل نہ سکا
اس میں کوئی چراغ جل نہ سکا
نہ ہوئے وہ شریک سوز نہاں
دل سے دل کا چراغ جل نہ سکا
سوز الفت سے عقل ہے محفوظ
جل گیا دل دماغ جل نہ سکا
برق تھا اضطراب دل لیکن
آرزوؤں کا باغ جل نہ سکا
دل مایوس میں امید کہاں
بجھ کے پھر یہ چراغ جل نہ سکا
روشنیٔ شعور بھی آئی
پھر بھی دل کا چراغ جل نہ سکا
عرشؔ کیا تجھ سے فیض محفل کو
تو مثال چراغ جل نہ سکا