خاموشی

اگرچہ یہ جہان رنگ و بو ہے
مگر ہر سو فساد میں و تو ہے
میں چپ رہ کر بہت کچھ کہہ گیا ہوں
یہ خاموشی ہی میری گفتگو ہے


طنز و مزاح کا یوں بھی کرشمہ دکھا دیا
ہنس کر رلا دیا کبھی رو کر ہنسا دیا
خاموش رہ کے میں نے کئی بار ؔخواہ مخواہ
لوگوں کو گفتگو کا سلیقہ سکھا دیا


جب بھی یاد کسی کی دل میں آتی جاتی رہتی ہے
بھولی بصری باتوں کی خوشبو مہکاتی رہتی ہے
جب ماضی کی آوازیں دیواروں سے ٹکراتی ہیں
میرے گھر میں خاموشی بھی شور مچاتی رہتی ہے


سیاہی کا بھی رنگ سنہرا دیکھا ہے
ساحل پر بھی پانی گہرا دیکھا ہے
جس پر خاموشی کا پہرہ دیکھا ہے
میں نے اس آواز کا چہرہ دیکھا ہے


کبھی ہمدم کبھی ہم راز ہوا کرتی ہے
کبھی مونس کبھی دم ساز ہوا کرتی ہے
دل کے کانوں سے سنو گے تو سنائی دے گی
خاموشی میں بھی اک آواز ہوا کرتی ہے


عیاں جو ہو گیا راز نہاں خموشی کا
فریفتہ ہو سارا جہاں خموشی کا
خود اپنے دل کا دھڑکنا سنائی دیتا ہے
یہ فائدہ بھی بہت ہے میاں خموشی کا


سمجھ لیں راست گوئی کو جو شہہ زوری سمجھتے ہیں
وہ کیسی بھی ہو ہم چوری کو بس چوری سمجھتے ہیں
بلند آواز میں سچ بولنا یوں بھی ضروری ہے
ہماری خاموشی کو لوگ کمزوری سمجھتے ہیں


زبان یوں بھی کبھی آسمان ہوتی ہے
جو منہ میں رہ کے بھی تیر و کمان ہوتی ہے
عجیب طرز تکلم ہے خاموشی کا بھی
زبان رکھتے ہوئے بے زبان ہوتی ہے


جو شاعری میں وہ اونچی اڑان رکھتا ہے
تو گفتگو میں بھی میٹھی زبان رکھتا ہے
وہ ؔخواہ مخواہ بہت کم سخن تو ہے لیکن
خموشیوں میں چھپی داستان رکھتا ہے