خاموش ہوں میں لب پہ شکایت تو نہیں ہے
خاموش ہوں میں لب پہ شکایت تو نہیں ہے
فریاد کروں یہ مری عادت تو نہیں ہے
جو موج غم و درد اٹھی ہے مرے دل میں
ہنگامہ تو بے شک ہے قیامت تو نہیں ہے
شاید مجھے مل جائے مرے درد کا درماں
امید سہی چین کی حالت تو نہیں ہے
فرصت میں مجھے یاد بھی کر لیجیے اک دن
یہ عرض محبت کی علامت تو نہیں ہے
مل جائے سر راہ کسی موڑ پہ کوئی
اک حادثہ بے شک ہے رفاقت تو نہیں ہے
انصاف جسے حق کا طرف دار کہیں سب
اس ملک میں قائم وہ عدالت تو نہیں ہے
کیوں گھر سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں یہاں لوگ
اس شہر میں قانون حفاظت تو نہیں ہے
اللہ رضا پر تری راضی ہی رہوں گی
ہو شکوہ زباں پر یہ جسارت تو نہیں ہے
آباد رہا دل میں وہی ایک سبیلہؔ
اب غیر کو آنے کی اجازت تو نہیں ہے