خاک دل پر غم کا بادل جب تلک برسا نہ تھا

خاک دل پر غم کا بادل جب تلک برسا نہ تھا
اپنے اندر کا چمن کچھ اس طرح مہکا نہ تھا


چلچلاتی دھوپ میں بن ماں کے بچے کے لیے
جا بجا پیڑوں کے جھرمٹ میں کہیں سایہ نہ تھا


غم کے موسم میں سفر لگتا تھا صدیوں پر محیط
رت بدلنے پر لگا ایسا بہت عرصہ نہ تھا


آج آنکھیں فرش رہ ان کے لیے کرنا پڑیں
ہم نے مڑ کے جن کو چلتے میں کبھی دیکھا نہ تھا


عہد نو کی آگ سینوں میں لگی ہے رات دن
پھول سے جذبوں کا گلشن اس طرح جھلسا نہ تھا


درد تو انساں ازل سے سہتا آیا ہے مگر
یوں کبھی درد آشنا کے واسطے ترسا نہ تھا


کھل کے رو لیتے تھے سب اک دوسرے کے سامنے
دل کے زخموں کو چھپا کے یوں کوئی رکھتا نہ تھا