جو گزرے دل پہ چہرے پر اسے تحریر کرنا کیا

جو گزرے دل پہ چہرے پر اسے تحریر کرنا کیا
کہ غم کا بھی ہے اک موسم اسے زنجیر کرنا کیا


ہمارے واسطے کافی تھا اک غنچے کا کھل جانا
ہمیں پھولوں بھرے باغوں کی اب جاگیر کرنا کیا


بہت کچھ کہہ دیا ہے چشم و ابرو کے اشاروں نے
اب اپنے ان کہے جذبات کی تحقیر کرنا کیا


سمے کی بارشوں سے دھل گئیں برسوں کی تحریریں
نئے قصے کتاب دل میں اب تحریر کرنا کیا


نگاہوں ہی میں جب ٹھہرا لیا عکس نظر تیرا
گلے کے ہار میں کندہ تری تصویر کرنا کیا


تو کیا عبرت نہیں آبادیوں کے یہ خرابے بھی
فلک پر بستیاں جا کر نئی تعمیر کرنا کیا


تمناؤں کے جگنو اڑ گئے ہیں بند مٹھی سے
ہتھیلی کی لکیروں میں چھپی تقدیر کرنا کیا