کون واں جبہ و دستار میں آ سکتا ہے

کون واں جبہ و دستار میں آ سکتا ہے
گھر کا گھر ہی جہاں بازار میں آ سکتا ہے


کس لیے خود کو سمجھتا ہے وہ پتھر کی لکیر
اس کا انکار بھی اقرار میں آ سکتا ہے


مجھ کو معلوم ہے دریاؤں کا کف ہے تجھ میں
تو مرے موجۂ پندار میں آ سکتا ہے


اے ہوا کی طرح اٹھکھیلیاں کرنے والے
بل کبھی وقت کی رفتار میں آ سکتا ہے


سر پہ سورج ہے تو پھر چھاؤں سے محظوظ نہ ہو
دھوپ کا رنگ بھی دیوار میں آ سکتا ہے


یہ جو میں اپنے تئیں شاعری کرتا ہوں عظیمؔ
کیا تخیل مرا اظہار میں آ سکتا ہے