اب سوچئے تو دام تمنا میں آ گئے

اب سوچئے تو دام تمنا میں آ گئے
دیوار و در کو چھوڑ کے صحرا میں آ گئے


تصویر تھے جو اولیں سرشاریوں میں لوگ
وہ زخم بن کے چشم تمنا میں آ گئے


ان سے بھی پوچھئے کبھی اپنی زمیں کا کرب
جو ساحلوں کو چھوڑ کے دریا میں آ گئے


وحشت نے یوں تو خوب دیا ہر قدم پہ ساتھ
لیکن ترے فریب دل آرا میں آ گئے


اس انجمن میں انجم و زہرہ بھی تھے مگر
ہم شب گزیدہ سحر ثریا میں آ گئے