کون کہتا ہے بڑھا شوق ادھر سے پہلے
کون کہتا ہے بڑھا شوق ادھر سے پہلے
کس نے دیکھا تھا کسے ترچھی نظر سے پہلے
مطمئن ہو لے ذرا اہل نظر سے پہلے
پردے آنکھوں کے اٹھا پردۂ در سے پہلے
ابھی تعلیم وفا یعنی جفا کا نہیں وقت
تربیت شوق کی ہو لطف نظر سے پہلے
ہاں محبت میں مزہ ہے مجھے انکار نہیں
مگر اے ذوق خلش درد جگر سے پہلے
سالک راہ وفا ہے دل آشفتہ مزاج
مژدۂ گمرہئ شوق سفر سے پہلے
جرأت عرض تمنا پہ خفا ہو لینا
مسکراؤ تو ذرا نیچی نظر سے پہلے
موسم کیف میں بے کیفئ جذبات نہ پوچھ
دل بلبل ہے فسردہ گل تر سے پہلے
جنبش مضطرب پردۂ عصمت کی قسم
جلوے بیتاب ہوئے ذوق نظر سے پہلے
جن سے بدنام ہوئے عشق کے جذبات لطیف
وہ اشارے تھے ادھر سے کہ ادھر سے پہلے
دو ارادوں میں جو حائل تھے حیا کے پردے
کس نے سرکائے اشارات نظر سے پہلے
کیوں کوئی پہلوئے جاناں میں جگہ پائے جمیلؔ
آج ہم بزم میں پہنچیں گے قمر سے پہلے