کترا کے گلستاں سے جو سوئے قفس چلے

کترا کے گلستاں سے جو سوئے قفس چلے
ایسی کوئی ہوا بھی تو اب کے برس چلے


آداب قافلہ بھی ہیں زنجیر پائے شوق
یہ کیا سفر اسیر صدائے جرس چلے


مانا ہوائے گل سے تھے بے اختیار ہم
پھر بھی بچا کے راہ کا ہر خار و خس چلے


پامال ہو کے رہ گئے جشن بہار میں
یہ فکر تھی چمن پہ خزاں کا نہ بس چلے


اے چشمۂ حیات نہ دی تو نے بوند بھی
ہم تشنہ کام ابر کی صورت برس چلے


صبحیں بھی آ کے زہر رگ جاں میں بھر نہ دیں
ہجران یار تیرے اندھیرے تو ڈس چلے


ان کی یہ ضد وہ دیکھیں گدائے‌ رفو ہمیں
ہم کو یہ فکر ان کے گریباں پہ بس چلے


تھا پاس آبروئے‌ تمنا ہمیں وحیدؔ
چن کر گل مراد سب اہل ہوس چلے