کٹے دن سن کئی موسم مہینے
کٹے دن سن کئی موسم مہینے
تجھے جی میں بہت ڈھونڈا ہے جی نے
چھوا پھولوں نے جھک کر اس کا چہرہ
بھگوئے ہونٹ شبنم کی نمی نے
ابھی برچھی کے پھل رڑکیں بدن میں
ابھی سڑکن بھرے یہ سر یہ سینے
پڑھیں رگ وید کی پاکیزہ حمدیں
پئے نروان جل کے آبگینے
بتائی رات کی سب بات آخر
کہیں کا بھی نہیں چھوڑا کسی نے
سکھی آ چاند کی جانب پھلانگیں
کٹہرے رنگ کے کرنوں کے زینے
جدائی کا تبھی مفہوم سمجھا
لگے جب چھوٹنے دل کے پسینے
یہ گانی لے کے آئیں اس کی میا
یہ انگوٹھی مجھے بھیجی ہے پی نے
سکھی کے دانت موتی جگتی جوتی
سکھی کے نین ترشیدہ نگینے
چٹک بوسہ تنے کیرے میں ہم تم
دکھائے ہائے کیا منظر مری نے