کرب کی آگ میں دن رات پگھلتے رہئے

کرب کی آگ میں دن رات پگھلتے رہئے
کروٹیں درد کے بستر پہ بدلتے رہئے


کون آتا ہے یہاں کس کو ہے فرصت یارو
جسم کی آگ میں خود اپنے ہی جلتے رہئے


ان کو پانے کی تمنا تو ہے اک خواب حسین
طفل نو عمر کی مانند مچلتے رہئے


آبلہ پائی سے جل اٹھے ہوں ہر سمت چراغ
جادۂ زیست پہ اس طرح سے چلتے رہئے


وادیٔ نجد ہے دامن نہ الجھ جائے کہیں
یاں ہر اک گام پہ اے دوست سنبھلتے رہئے