ابر ہر کھیت پہ ہر راہ گزر پر برسے

ابر ہر کھیت پہ ہر راہ گزر پر برسے
غم وہ برکھا جو مری روح کے اندر برسے


آئی ساون کی گھٹا گھر کے مگر جم نہ سکی
اشک آنکھوں میں امنڈ آئے تو شب بھر برسے


بزم میں ان پہ ہوئی لالہ و گل کی بارش
اور مرے سر پہ جو برسے بھی تو پتھر برسے


بیتے ساون میں یہ منظر بھی نظر سے گزرا
سر بازار جب اولوں کی طرح سر برسے


اجنبی دیس نہ تھا کوچۂ قاتل بھی نہ تھا
اپنے ہی شہر میں آزادؔ پہ خنجر برسے