کرم بہ نام ستم اس پہ بے حساب ہوا
کرم بہ نام ستم اس پہ بے حساب ہوا
جو لٹ گیا رہ الفت میں کامیاب ہوا
نظر نظر نے پنہایا لباس تار نظر
پس نقاب ہوا جو بھی بے نقاب ہوا
وہ سرفراز ہوا کاروبار الفت میں
برائے مشق جفا جس کا انتخاب ہوا
نہ زندگی نے قبولا نہ موت نے پوچھا
خراب حال زمانہ بہت خراب ہوا
اتر گئے جو کسی کی ہنسی کے صدقے میں
ان آنسوؤں کا ہوا تو کہاں حساب ہوا
یہ کیا کہ اپنی بھی پہچان ہو گئی مشکل
بالآخر اپنی نگاہوں سے بھی حجاب ہوا
اتر سکا جو کھرا وقت کی کسوٹی پر
مآل کار وہ ذرہ بھی آفتاب ہوا
دل و نظر کی بہاروں کے رخ پلٹتے ہی
رشیؔ گلاب کا چہرہ بھی آب آب ہوا