کر سکی کچھ نہ تری زلف سیاہ فام مرا
کر سکی کچھ نہ تری زلف سیاہ فام مرا
کفر کے سایہ میں بڑھتا رہا اسلام مرا
ساقیا میز پہ رہنے دے ابھی جام مرا
مست آنکھوں نے تیری کر دیا الٹام مرا
کیا کہا تو نے بڑھاپے میں نہ لے نام مرا
حسن تھا خام ترا عشق نہیں خام مرا
لڑتے ہی پہلی نظر جان تصدق کر دی
ہو گیا ساتھ ہی آغاز کے انجام مرا
تم اگر پیار سے دیکھو تو ابھی جی جاؤں
نگہ ناز میں ہے زیست کا پیغام مرا
بومؔ چپکے سے وہیں دے دیا بوسہ اس نے
کان میں جب یہ کہا نیند کا انعام مرا