کل جو جھونکے خزاں کے چلے آئے تھے رنگ سارا چمن کا اڑا لے گئے

کل جو جھونکے خزاں کے چلے آئے تھے رنگ سارا چمن کا اڑا لے گئے
شاخ سے ہر کلی کو جدا کر گئے گل کے لب سے ہنسی کو چرا لے گئے


ہم مصیبت کے مارے غریب الوطن جب وطن سے خود اپنے نکالے گئے
ساتھ ٹوٹا ہوا ایک دل لے گئے اور آنکھوں میں آنسو بٹھا لے گئے


یاد اتنا ہے کہ پاس آئے تھے وہ پھر ہوا یوں حواس اپنے گم ہو گئے
ہوش آنے پہ خود میں کمی سی لگی میں سمجھ ہی نہ پائی وہ کیا لے گئے


ہر خوشی تو چلی ہی گئی تھی مگر تیری یادوں کا باقی تھا اک آسرا
وقت کے تیز طوفاں جو گھر آئے تھے آخری آسرا بھی بہا لے گئے


بعد مدت کے راحت لبوں پر مرے آ رہی تھی ہنسی دھیرے دھیرے مگر
یک بہ یک آ کے جھونکے تری یاد کے پھر لبوں سے ہنسی کو اڑا لے گئے