کیسے ہر درد کو سینے میں چھپائے رکھیں
کیسے ہر درد کو سینے میں چھپائے رکھیں
اور ہونٹوں پہ تبسم کو سجائے رکھیں
جو تھے اپنے وہ زمانہ ہوا سب چھوڑ گئے
کب تلک بزم کو غیروں سے سجائے رکھیں
یہ سنا ہے کہ وہاں دیر ہے اندھیر نہیں
تو چلو بہر دعا ہاتھ اٹھائے رکھیں
جب یہ چھٹ جائیں گے بادل تو کرن پھوٹے گی
شمع امید کی اک ہم بھی جلائے رکھیں
یوں تو بھولے سے بھی اب یاں نہ کوئی آئے گا
احتیاطاً ہی مگر گھر کو سجائے رکھیں
دل میں سوئی ہوئی چنگاری نے کروٹ لی ہے
اب تو اس آگ سے دامن کو بچائے رکھیں
ہوگا نکہتؔ سے معطر یہ چمن بھی اک روز
بس تری یاد کے پودوں کو لگائے رکھیں