کیسے عجیب دکھ تھے دل میں چھپا کے لائے

کیسے عجیب دکھ تھے دل میں چھپا کے لائے
گرد سفر تھی رہ میں بس ہم اٹھا کے لائے


ہر رہگزر پہ اس کو رکھنا تھا یاد سو ہم
انجان راستوں میں خود کو بھلا کے آئے


جیون کی دھوپ میں یوں تنہا سفر تھا اپنا
سکھ سب کو بانٹ ڈالے بس دکھ اٹھا کے لائے


اپنے تھے یا پرائے لہجوں میں بس چبھن تھی
مسکان اپنے لب پر پھر بھی سجا کے لائے


پڑھتا نہیں ہے کوئی پھر بھی لکھا ہے ہم نے
سنتا نہیں ہے کوئی لیکن سنا کے آئے


اس واسطے تو شہہ ہیں مری روح جل رہی ہے
جیون کی آگ میں ہم خود کو جلا کے آئے