کیف و سرور و مستی ہم سے خود میں ہیں مے خانہ ہم

کیف و سرور و مستی ہم سے خود میں ہیں مے خانہ ہم
شیشہ ساغر ساقی مینا جام و سبو پیمانہ ہم


ایک ذرا سی دیر ہوئی کیا اس کی گلی تک جانے میں
تنہائی کی شکل میں اب تک بھرتے ہیں جرمانہ ہم


جانے کون سا جادو تھا اس جھیل سی گہری آنکھوں میں
دل جیسی نایاب سی شے تک دے آئے نذرانہ ہم


جس نے چاہا جیسا چاہا جوڑ لیا اک رشتہ پھر
عشق میں تیرے بھول گئے جب اپنا اور بیگانہ ہم


روئے زمیں کا اک اک منظر اپنی نظر کے دم سے ہے
صحرا اور سمندر ہم ہیں گلشن اور ویرانہ ہم


رفتہ رفتہ مٹ جائیں گے نقش ہماری ہستی کے
دھیرے دھیرے ہو جائیں گے دنیا میں افسانہ ہم