فلک میں اڑوں پاؤں میں زمیں بھی رہے
فلک میں اڑوں پاؤں میں زمیں بھی رہے
زباں سے ہاں بھی کہوں ذہن سے نہیں بھی رہے
ترے سوا بھی کسی اور کی زمین تھی کیا
چمن میں دشت میں صحرا میں یا کہیں بھی رہے
مری ہی خاک سر طور ہم کلام بھی ہو
مری ہی خاک میں آذر پنہ گزیں بھی رہے
وہ جس کے در پہ ہے یہ کائنات سجدہ ریز
اسی کے در پہ خمیدہ مری جبیں بھی رہے
نہیں یہ بات تو ممکن نہیں کی صورت میں
کہ لا مکاں بھی رہے دل میں اور مکیں بھی رہے
وہ جس کی لہر پہ لہرائے عالم امکاں
اسی کو حق ہے وہی زیر آستیں بھی رہے