کہیں تھی راکھ کہیں تھا دھواں کہیں تھی آگ

کہیں تھی راکھ کہیں تھا دھواں کہیں تھی آگ
فلک ڈھکا تھا ستاروں سے جب زمیں تھی آگ


جمے ہوئے لب و رخسار بھی دہک رہے تھے
حصار موسم برفاب میں حسیں تھی آگ


حدود جسم سے باہر نکل کے سرد لگی
قیود جسم میں تھی جب تک تھی بر تریں تھی آگ


عداوتوں میں نئے رنگ بھر رہا تھا وہ
بغل میں سانپ تھے اور زیر آستیں تھی آگ


ترا ٹھٹھرتا بدن بھی بجھا سکا نہ مجھے
کچھ ایسے بر سر صحن بدن مکیں تھی آگ


شب وصال کا احوال پوچھنا مت دوست
پس قبائے غضب عطر عنبریں تھی آگ


کمال کن نے رکھا پیاس میں جمال آب
نہیں تھا جب کہیں پانی کہیں نہیں تھی آگ


سفر کا بوجھ برابر رہا ہے دونوں پر
جہاں جہاں بھی تھا پانی وہیں وہیں تھی آگ


وجود لمس کی لذت سے نا شناس رہا
وہ ہاتھ سرد تھا حیدرؔ مری جبیں تھی آگ