کہیں شعلہ کہیں خاکستر تازہ نظر آیا
کہیں شعلہ کہیں خاکستر تازہ نظر آیا
وہاں میں تھا جہاں پھولوں کا دروازہ نظر آیا
بہکتی ہیں ہوائیں پھول بے موسم بھی کھلتے ہیں
جہان آب و گل ہم کو بہ اندازہ نظر آیا
ہوا کی زہر ناکی ابر نارفتہ کی سفاکی
مجھے اکثر وداع گل کا خمیازہ نظر آیا
اداسی تھی کہ تھا اک جلوۂ صد رنگ و بو شاید
دل بے رنگ بھی رنگوں کا شیرازہ نظر آیا
شجر کا عکس تھا آب رواں تھا اور میں بھی تھا
ثمر شاخ بریدہ کا تر و تازہ نظر آیا
زباں کا حسن بھی ہموار و ناہموار ہوتا ہے
کہیں فطرت نظر آئی کہیں غازہ نظر آیا