کہیں پہ گرد کہیں پر ہوا بناتی ہوں

کہیں پہ گرد کہیں پر ہوا بناتی ہوں
میں خود کو اب تو بس اپنے سوا بناتی ہوں


کہیں پہ تارے کہیں پر ہیں آس کے جگنو
خزاں میں بھی میں گلوں کی فضا بناتی ہوں


بکھر گئے تھے کسی نام کے حروف کہیں
اب ان کو جوڑ کر اک آئنہ بناتی ہوں


یہ طے ہے اس کو اگر لوٹ کر نہیں آنا
تو کس لیے میں دعا کو عصا بناتی ہوں


اجالتا ہے یہ تاریکیاں مرے دل کی
تمہاری یاد کو ہر پل دیا بناتی ہوں


جب اپنے اشک چھپاتی ہوں مسکراہٹ سے
تو اپنے درد کو اپنی دوا بناتی ہوں


تراش کر کسی پتھر کے ایک پیکر کو
کمال عشق سے اس کو خدا بناتی ہوں


کہ خواب میں رہے تا دیر گفتگو تجھ سے
ذرا سی بات کو میں واقعہ بناتی ہوں


سنا تھا میں نے جو شاہینؔ ایک لمحے کو
اس ایک لمحے کو اپنی صدا بناتی ہوں