کہا یہ کس نے مجھے زندگی سے پیار نہیں
کہا یہ کس نے مجھے زندگی سے پیار نہیں
یہ اور بات ہے حالات خوش گوار نہیں
بساط ہی تو ہے کیا جانے کب الٹ جائے
یہاں پیادہ و فرزیں کا اعتبار نہیں
جہاں جہاں نظر اٹھی وہاں وہاں تو تھا
کہاں کہاں ترے جلووں کا انتشار نہیں
وہ کیا کسی کی نگاہوں پہ اعتبار کرے
جسے خود اپنی نگاہوں پہ اعتبار نہیں
فسوں شناس ہوں میں رنگ و بو سمجھتا ہوں
فریب خوردۂ رنگینیٔ بہار نہیں
نہیں ہے کوئی بھی شے قبضۂ تصرف میں
کسی بھی چیز پہ انساں کو اختیار نہیں
دم حباب نوازش کی اس قدر بارش
گناہ گار بھی جیسے گناہ گار نہیں
نظر کا کیا ہے بہک بھی گئی ہے یہ اکثر
ہمارا دامن دل ہے کہ داغ دار نہیں
ابھی تو کشمکش دار و گیر باقی ہے
ابھی حیات کا ماحول سازگار نہیں
مری روش ہے الگ تاجؔ میرا ذوق جدا
ادب کو بیچ کے جینا میرا شعور نہیں