کبھی تو دل کا کہا دل سے وہ سنے گا ہی
کبھی تو دل کا کہا دل سے وہ سنے گا ہی
یہ قطرہ سنگ میں سوراخ تو کرے گا ہی
وہ میرے ہاتھ سے برسات کے زمانے میں
پکوڑے کھائے گا اور چائے بھی پیے گا ہی
سہانی شام کسی دل نشیں وادی میں
وہ دو ہی ساتھ ساتھ چلے چلے گا ہی
ابھی یہ سوچ کے میں ظلم سہتی جاتی ہوں
کبھی تو ہاتھ ترے ظلم کا رکے گا ہی
یہ داغ دل نہیں جو چھپ سکے چھپانے سے
بدن کا زخم ہے اب خون تو بہے گا ہی
اسیر سب ہیں فنا کے حصار میں لیکن
خدا کی یاد سے بہتر صلہ ملے گا ہی
شعور سے ہی بشر چاند پر بھی پہنچا ہے
زمانہ علم کی دولت سے تو بڑھے گا ہی
کوئی غرور میں اعلان خود سری کر لے
خدا کے سامنے آخر کو سر جھکے گا ہی
سبیلہؔ تیرے حقیقت بیان کرنے سے
جہاں پہ راز جنوں ایک دن کھلے گا ہی