کبھی مکاں کی طرف ہے کبھی مکیں کی طرف
کبھی مکاں کی طرف ہے کبھی مکیں کی طرف
کسی کا رخ ہے ازل سے مری زمیں کی طرف
چراغ لالہ ہے روشن نہ سرخ روئے حنا
فضائے صحن گلستاں ہے یاسمیں کی طرف
مرے بدن نے بھی اس فیصلے پہ صاد کیا
کہ داغ سجدہ رہے گا فقط جبیں کی طرف
طیور خواب ہوں آئینے ہوں ستارے ہوں
رواں دواں ہیں سبھی عرش نیلمیں کی طرف
ہوا ہے کوئی اگر فیصلہ مرے حق میں
کبھی میں ہاں کی طرف تھا کبھی نہیں کی طرف
بدل نہ پاؤں گا میں آسماں بدلنے سے
مرا جھکاؤ رہے گا اسی حسیں کی طرف
دیار دل کا اندھیرا اگر چھٹا ساجدؔ
تو دھیان جائے گا اس شمع اولیں کی طرف