کبھی لگاوٹ کبھی عداوت مجھے اجازت

کبھی لگاوٹ کبھی عداوت مجھے اجازت
تجھے ہے سوجھی نئی شرارت مجھے اجازت


میں آئنے کو قریب لا کے ذرا جو رکھوں
بدلنے لگتی ہے تیری صورت مجھے اجازت


ہر ایک تجھ کو بہت ہے پیارا بہت ہی پیارا
میں جانتا ہوں یہ تیری عادت مجھے اجازت


تری طلب میں جہان سارا یہاں کھڑا ہے
مجھے اجازت مجھے اجازت مجھے اجازت


تمہارے لہجے کی سرد مہری تو کم نہ ہوگی
ٹھٹھر گئی ہے مری سماعت مجھے اجازت


یہاں تو بس ہیں تمام دانشوران الفت
سنوں میں کس کس کی اب خطابت مجھے اجازت


میں اپنے ہاتھوں سے لکھے کاغذ جلاؤں کیسے
تجھے مبارک تری یہ جرأت مجھے اجازت


کوئی گلہ ہے نہ کوئی شکوہ نہ کوئی رنجش
جہاں رہو تم رہو سلامت مجھے اجازت


بدل بدل کے چراغ رکھے ہیں طاقچوں پر
قبولیت کی نہ آئی ساعت مجھے اجازت


پکار لینا بلا جھجک تم مجھے کہیں بھی
اگر پڑے جو مری ضرورت مجھے اجازت