کبھی کابل کبھی ڈھاکہ کبھی رنگون سے نکلے

کبھی کابل کبھی ڈھاکہ کبھی رنگون سے نکلے
نہ جانے کتنے ہی دریا ہمارے خون سے نکلے


ہم اپنا نفس امارہ سمجھنے سے رہے قاصر
کتاب نفس پڑھ کر آگے افلاطون سے نکلے


اجازت میں نہیں دوں گا مرا دل توڑ جانے کی
مرے دل سے جو نکلے قاعدے قانون سے نکلے


اسے تو بولنے والا ہی اب بہتر بتائے گا
ہزاروں جھوٹ کیسے ایک ٹیلیفون سے نکلے


یہ پورے سال مزدوروں کے ماتھے سے ٹپکتا ہے
پسینہ کیا ضروری ہے کہ خالی جون سے نکلے


عطا کی ہے خدا نے ان کو رنگت سرخ یاقوتی
تمہارے ہونٹ ہیں یا پھر ثمر زیتون سے نکلے


گزر جب جب ہوا ہے نورؔ بازار محبت سے
بچا کر اپنی آنکھیں ہم ہر اک خاتون سے نکلے