کبھی اس مکاں سے گزر گیا کبھی اس مکاں سے گزر گیا

کبھی اس مکاں سے گزر گیا کبھی اس مکاں سے گزر گیا
ترے آستاں کی تلاش میں ہر آستاں سے گزر گیا


کبھی مہر و ماہ و نجوم سے کبھی کہکشاں سے گزر گیا
جو تیرے خیال میں چل پڑا وہ کہاں کہاں سے گزر گیا


ابھی آدمی ہے فضاؤں میں ابھی اڑ رہا ہے خلاؤں میں
یہ نہ جانے پہنچے گا کس جگہ اگر آسماں سے گزر گیا


یہ مرا کمال گنہ سہی مگر اس کو دیکھ مرے خدا
مجھے تو نے روکا جہاں جہاں میں وہاں وہاں سے گزر گیا


جسے لوگ کہتے ہیں زندگی وہ تو حادثوں کا ہجوم ہے
وہ تو کہیے میرا ہی کام تھا کہ میں درمیاں سے گزر گیا


میں مراد شوق کو پا کے بھی نہ مراد شوق کو پا سکوں
در مہرباں پہ پہنچ کے بھی در مہرباں سے گزر گیا


چلو عرشؔ محفل دوست میں کہ پیام دوست بھی ہے یہی
وہ جو حادثہ تھا فراق کا سر دشمناں سے گزر گیا